حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ریوائیول احیاء درس علماء کا آن لائن درس اور عوام کے براہ راست سوال و جواب میں بروز جمعرات جناب ڈاکٹر سید حیدر رضا مدرس کے عنوان سے شریک تھے، آپ کے زیر بحث کتاب امام خمینیؒ کی کتاب چہل حدیث تھی جو کہ بنیادی طور پر تزکیہ نفس سے متعلق ہے۔
ڈاکٹر سید حیدر رضا اپنے ہر پروگرام کے آغاز میں تزکیہ نفس کے حوالے سے بنیادی نکات کو دہراتے ہوئے فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ اپنے اندر سے بری صفات کو باہر نکالے اور اچھی صفات کو اپنے اندر جنم دے۔
اس پروگرام کا موضوع ایک حدیث قرار پائی جو حدیث نمبر 27 ہے، جس میں عبادت کے سلیقے پر توجہ دلائی گئی ہے، سید حیدر رضا نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اب ہم جس صفت پر بات کر رہے ہیں وہ ہے اخلاص، جیسی نفس کی حالت ہوتی ہے ویسا ہی عمل برآمد ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ(۴)الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ(۵)الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَ(۶) تباہی ہے ان نمازیوں کیلئے۔ (4) جو اپنی نماز (کی ادائیگی) میں غفلت برتتے ہیں۔ (5) جو ریاکاری کرتے ہیں۔ (6) سورۃ الماعون
انہوں نے نماز میں حضور قلب کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نماز ادا کرتے ہوئے قلب کی کیا حالت ہے یہ اہمیت رکھتا ہے ، نماز سے غفلت اور ریا کاری کی بنیاد پر ان نماز نہ صرف یہ کہ قبول نہیں ہو رہی بلکہ یہ نماز الٹا جہنم میں پہچا رہی ہے۔ نماز کی ظاہری شکل بعد میں آتی ہے پہلے بنیادی شرائط کو پورا کر لیں جو کہ قلب کا اخلاص ہے اخلاص حقیقتاً نفس میں ہوتا ہے، نفس اگر خالص ہو تو ہی عمل خالص ہوتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ انسان کا بدن صحت مند ہوتا ہے تو اس میں سے مضبوطی اور طاقت اور اچھے طریقے سے کام برآمد ہوتے ہیں ورنہ ایک بیمار انسان تھکا ماندہ انسان وہ ایک کام کو درست طریقے سے انجام نہیں دے سکتا، یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے نفس کے اندر اگر خرابیاں ہیں پاکیزگی نہیں ہے طہارت نہیں ہے تو آپ ظاہری عمل میں جتنی دقت کر لیں اخلاص پیدا ہونے کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے چھٹے امام کی حدیث ہے کہ اے آدم کے بیٹو اپنے آپ کو میری عبادت کے لئے فارغ کر لو میں تیرے قلب کو غنی یعنی بے نیازی سے بھر دوں گا اور تیری طلب تیری خواہش اور تیرے مسائل کے حوالے تجھ کو نہیں کروں گا اور اس وقت میرے اوپر لازم و واجب ہو جائے گا میں فقر کو تم سے روک دوں اور اگر نہیں کرو گے تو تمہارا قلب دنیا میں ہی مشغول رہے گا اورفقرو فاقہ چاروں طرف سے تم پر یلغار کرے گا تمہارے مسائل حل نہیں ہوں گے جو تم مسائل حل کرنا چاہتے ہو فقر و فاقے کے۔
ڈاکٹر سید حیدر رضا نے نماز کو سبک سمجھنے کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی فرماتے ہیں کہ نماز کو ہلکا سمجھنے کا کیا مطلب ہوتا ہے، اس بات کو جان لو تو فراغت کا مطلب قلب کی فراغت ہے اپنی نمازوں کے اوقات مقرر کریں اور حتیٰ الامکان وقت پر ادا کریں تاکہ قلب کی توجہ اچھے طریقے سے حاصل ہو جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری بد بختی یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی منتشر خیالات ہیں وہ نماز کے وقت ہی ہم پر جمع ہو جاتے ہیں نماز کے وقت ہماری بھولی بسری باتیں بھی نماز میں یاد آنا شروع ہو جاتی ہے تکبیرۃ الاحرام جب کہتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی ہماری سوچ کی دکان کا دروازہ کھل جاتا ہے، اور ہوش اس وقت آتا ہے جب ہم السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہہ رہے ہوتے ہیں، یہ ممکن ہے کہ یہ نماز فقہی اعتبار سے صحیح ہو لیکن حقیقت میں یہ رسوا کن ہے اور ایسا ذکر اور مناجات شرم ناک ہے، اگر اسکا مواخذہ ہو گیا تو سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
سید حیدر رضا نے کہا کہ رازو نیاز کا معاملہ یہ ہے کہ خدا نے ہمارے لئے عبادتوں کے ذریعے سے خدا سے قریب ہونے کے دروازوں کو کھولا ہے۔خدا کی صفات کو جذب کریں اس کی نورانیت کو جذب کریں اور اپنے حال دل کو خدا سے بیان کرسکیں جیسا کہ انتہائی قریبی ساتھی محبت کرنے والے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے رازوں کو بیان کرتے ہیں یہ ہے عبادت کا مقصد حال دل ہے رازو نیاز کا مطلب حاجتوں کی پٹاری نہیں ہے. کہ مجھ یہ چاہیے وہ چاہیے رازونیاز کا ، مطلب انسان کے قلب میں مثال کے طور پر انسان اپنے گناہوں سے پریشان ہے انسان اپنی ذات کے نقص اور عیب اور اپنی نا لائقی سے پریشان ہے انسان یہ چاہتا ہے کہ میں خدا سے محبت کروں لیکن وہاں تک نہیں پہنچ پایا ہم چاہتے ہیں کہ اپنی سیرت کو اہل بیت علیہم السلام کے کردار سے ملائیں لیکن ہم نہیں کرپا رہے ہیں یہ ہے وہ رازو نیاز جو خدا سے بیان ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر کا مکمل درس سننے کے لئے ریوائیول کے یو ٹیوب چینل پر اور فیس بک پر موجود ہے اور لائیو پروگرام اٹینڈ کرنے کے لیے زوم لنک جوائن کیجئے: